حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اپنی بیٹی سے کہتے ہیں بیٹی پانی لاؤ وقت کے امیر نے تین دفعہ بیٹی کو آواز دی کہ پانی لاو لیکن بیٹی پانی لانے نہیں اٹھی بیوی پانی لے کے ائی کہنے لگے یہ پیالہ لے لیں تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ناراض ہو گئے کہنے لگے جسے پانی لانے کو کہا تھا وہ کیوں نہیں لائی تو کیوں ائی ہے کیا میری بچی نافرمان ہو گئی ہے تو بیوی کہنے لگی اس کا کرتہ پھٹ گیا ہے دوسرا کرتا پاس نہیں ہے اس کے وجود کا کچھ حصہ اس کرتے کی وجہ سے نظر ارہا ہے بیچاری اندر بیٹھ کے سی رہی ہے میں ائی ہوں حضرت عمر بن عبدالعزیز سے زوجہ کہنے لگی جب سے اپ امیر المومنین بنے ہیں ہمارے فاقے چلتے ہیں غربتیں ہیں بیٹیاں تو سب کی پیاری ہوتی ہیں اور اگر بیٹی کے لیے جوڑا نہ ہو تو پھر بیٹی باہر کیسے آئے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھے صحن میں رونے لگے کہنے لگے مولا شکر ہے عمر کے گھر میں حکومت تو آئی ہے پر دولت نہیں آئی اللہ شکر ہے عمر کے گھر میں حرام کا مال نہیں آیا یہ ہمارے حکمران تھے یہ ہمارے لیڈر تھے اور یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی۔